2015 میں پی آئی اے نے 2 بوئنگ 777 طیاروں کو لیز پر لینے کیلئے ٹینڈر جاری کیا۔ لیز کے اس ٹینڈر میں دنیا کی مختلف کمپنیوں نے شرکت کی جن میں سے ایک کینیا کی ائیرلائن بھی تھی کیونکہ اس کے پاس اضافی طیارے تھے جنہیں وہ بیچنا یا لیز پر دینا چاہتی تھی۔ مجموعی طور پر کینیا کی ائیرلائن


کی آفر پرکشش تھی تاہم پاکستان نے یہ ٹینڈر ائیرکیپ نامی آئرش کمپنی کو دے دیا۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ مہنگے داموں لیز پر لینے کے پیچھے کرپشن یا کک بیکس تھے، بلکہ اس کی وجہ ائیرکیپ کی ریپوٹیشن تھی۔ ائیرکیپ دنیا کی سب سے بڑی لیزنگ کمپنی ہے جو دنیا کے تقریباً پچاس ممالک کو اپنے جہاز


لیز پر دیتی ہے۔ طیاروں کی کوالٹی یا کسی دوسرے ایشو پر ائیرکیپ کی آفٹرسیل سروسز دوسری کمپنیوں کی نسبت بہت بہتر ہوتی ہیں اور اس میں رسک کا مارجن بھی کم ہوتا ہے، اس لئے 2015 میں پی آئی اے نے یہ ٹینڈر ائیرکیپ کو دے دیا۔ گزشہ سال لیکن ائیرکیپ نے اپنے سو سے زائد جہاز ایک دوسری کمپنی


کو بیچ دیئے جس کا نام پیریگرین ہے۔ ان میں وہ جہاز بھی شامل تھے جو پی آئی اے نے ائیرکیپ سے لیز پر لے رکھے تھے پی آئی اے نے اس خبر کے بعد ائیرکیپ سے احتجاج کیا اور کہا کہ ہمارا لیز کا ایگریمنٹ آپ کی کمپنی کی ساکھ کو دیکھ کر ہوا تھا لیکن اگر آپ یہ جہاز کسی دوسری کمپنی کو بیچ رہےہیں


تو پھر ہمیں لیز کے ریٹس کو دوبارہ دیکھنا ہوگا کیونکہ اس صورت میں کینیا کی آفر ہمارے لئے زیادہ پرکشش ہوتی۔ پی آئی اے اور ائیرکیپ کے درمیان اس وقت لندن میں مقدمہ چل رہا ہے لیکن پیریگرین نامی کمپنی نے ان دو جہازوں کی لیز کی عدم ادائیگی کی بنا پر ملائشیا میں کیس دائر کردیا جہاں ان


دونوں جہازوں کی پرواز جاتی ہے۔ آج کوالالمپور میں پی آئی اے کا یہ جہاز روک لیا گیا۔ پی آئی اے نے یہ معاملہ ڈپلومیٹک سطح پر اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ ملائیشیا کے ساتھ بھی ہمارے دوستانہ تعلقات ہیں اور پیریگرین نامی نئی کمپنی بھی ایک سعودی کمپنی کا انویسٹمنٹ آرم ہے یوں پاکستان


2دوستوں کے بیچ سینڈوچ بن رہا ہے ورنہ انٹرنیشنل کورٹ میں اگر یہ معاملہ لایا جاتا تو ملائشییا اور سعودی کمپنیوں کو کئی ملین ڈالرز کا جرمانہ ہوسکتا تھا یہ تھی اصل کہانی، اس پر ہمیشہ کی طرح پٹواری، لفافے اور بغضیوں نے بہت شور مچا رکھا ہے لیکن اصل بات کی تحقیق کرنا ان کے بس سے باہر ہے


Top