خطاطِ مسجد النبوی، پاکستانی ہیرا دروازے پر زور سےدستک ہوئی بوڑھے شخص نے دروازہ کھولا تو ہمسائے اور اہل محلہ سارے اکٹھے تھے تیور تو غصے والے جنہیں دیکھ کر گھر سے برآمد ہونےوالے بزرگ تھورا سا پریشان ہوئے اور پوچھا کیا بات ہے سب خیریت ہے نا؟ خیریت کہاں ہے بھائی تمھارا لڑکا آئے ⬇️


روز ہمارےگھر کی دیواروں پر لکوئلے سےپتا نہیں کیا نقش و نگار بناتا رہتا ہےساری دیواریں اسنے کالی کررکھی ہیں تم اپنے لاڈلےکو منع کیوں نہیں کرتے؟ اسےسمجھاؤ ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔بڑے میاں نے وقتی طور پر اہل محلہ کو سمجھا بجھاکر بھیج تو دیا لیکن وہ اس شکایت سےقدرے نالاں بھی تھےبیٹے ⬇️


سمجھایا یار باز آجا کیوں لوگوں کو تنگ کرتا ہے اپنی پڑھائی پر دھیان دے اور آئندہ شکایت کا موقع نہ دینا بیٹےنے سرجھکا کر سن تو لیا لیکن وہ باز رہنے والا کہاں تھا یہ آڑھی ترچھی لکیریں اس کا شوق تھا اور شوق سے لاتعلقی کون اختیار کرسکتاہے پھر اس لڑکےنےباپ کا مان رکھتے ہوئےدیواروں ⬇️


کو کالا کرنا ترک کردیا لیکن دیواروں کےعلاوہ جو بھی خالی جگہ ملتی وہاں وہ چاک یا کوئلےسے کچھ نہ کچھ بناتا رہتا اسکول میں اساتذہ کی غیر موجودگی میں تختہ سیاہ پر چاک کی مدد سے وہ اپنے شوق کی تکمیل کرتا رہتا کبھی ڈانٹ اور کبھی حوصلہ افزائی دونوں برابر ملتےرہے وقت گزرتا رہا اسکول ⬇️


میں منعقدہ خطاطی اور خوش نویسی کے مقابلوں میں حصہ لینا شروع کردیا جو بھی لکھاہوا یا بناہوا نمونہ دیکھتا اسے ہوبہو چاک کی مدد سےبنالیتا تھا خوش نویسی کےقواعد یاخطوں کی پہچان اسےبالکل نہ تھی لیکن جیسا بھی مشکل خط ہوتا وہ اسےکاغذ پر اتارلیتا کوئی پوچھتا یہ کون سا خط یا سٹائل ہے ⬇️


تو وہ بتانہیں سکتاتھا کیونکہ اسکے پاس باقاعدہ تعلیم نہیں تھی نا پہچان تھی کلاس میں سب سےپہلے آتا چاک سے تختہ سیاہ پر مشق کرتا باقی ہم جماعت اور اساتذہ کےآنےسےپہلے وہ مشق کرلیتا اگر کبھی کبھار کوئی استاد دیکھ لیتا تو حیران رہ جاتا کہ نو عمر اور نو آموز بچے کا اتنا عمدہ خوش خط ⬇️


آہستہ آہستہ اسکی مشق میں پختگی آگئی اسکول میں کوئی خطاطی کا استاد نہیں تھا اور آرٹ یا ڈرائنگ کا استاد اسے تھوڑا بہت سکھا تودیتا تھا لیکن وہ لڑکا ان استادوں سےزیادہ بہتر لکھ لیتا تھاچھوٹے چھوٹے مقابلے جیتتا رہا محلےمیں بھی بینر اور اشتہار والے کی حیثیت سے پہچان بنوالی، اسی ⬇️


دوران میٹرک کرلی اور آگےتعلیم جاری رکھنا مشکل ہوگیا تو اسکول جانا چھوڑ دیا۔برش اور رنگ لیتا اور گلیوں محلوں میں نکل جاتا لوگوں کی دکانوں پر نام لکھتا بینر لکھتا اور چند پیسےکماتا اس کام سےاسے تسکین نہیں مل رہی تھی۔اسکول چھوڑنے وقت کی فراوانی بھی ہوگئی ایک دن اسے کہیں سےایک ⬇️


کتاب ملی نام تھاخوشخطی سیکھیں اس کتاب میں اردو اور عربی کے خطوں کے متعلق معلومات تھیں جیسے برش قلم اور رنگوں کی معلومات اس نے وہ کتاب حفظ کرلی اور خطوں کی شکلیں یاد کرکےمشق کرنے لگاپھر ایک دن بڑی دکان سے عربی رسم الخط کےمتعلق ایک کتابچہ مل گیا اب عربی تو وہ پڑھ نہیں سکتا تھا ⬇️


لیکن عربی خطوں کی شکلیں اسے پتا چل گئیں۔چھوٹے چھوٹے کام کرتے وہ بڑی کمپنیوں اور اداروں کے کام کرنے لگا ایک دفعہ کراچی کی مصروف شاہراہ پر وہ تاج کمپنی کا سائن بورڈ لکھنے میں مصروف تھا کہ ایک بڑی گاڑی آکر رک گئی اور اس میں بیٹھے شخص نے اسے نیچے آنے کا اشارہ کیا وہ نیچے آیا تو ⬇️


دیکھا اس سےمخاطب ایک عربی شخص ہے اور عربی سے تو وہ ناواقف تھا اس پیچھے ایک چھوٹی گاڑی بھی آکر رکی اس میں پاکستانی افراد تھے وہ کہنے لگے کہ شیخ چاہتا ہے کہ تم اسکےساتھ سعودی عرب جاکر اس کے لیے خطاطی کا کام کرو۔لڑکا کہنے لگا مجھے تو عربی بولنا اور لکھنا آتی ہی نہیں میں کیسے یہ ⬇️


کام کروں گا تو عربی نے بتایا کہ تم جس خط میں لکھ رہے ہو یہ عرب کا مشہور خط ہے اسے ہر کوئی لکھ نہیں سکتا تم اسے مہارت سےلکھ رہے ہو اور کہتے ہو میں جانتا بھی نہیں وہ عربی سعودی سفیر کا دوست تھا اور اسےلڑکےکا کام پسند آگیا اور اسے ساتھ چلنے کا کہا یوں گھر سےاجازت لیکر اس نے ⬇️


پاسپورٹ بنواکر شیخ کےحوالے کیا اور چند دن بعد سعودی شہر ریاض میں بیٹھا بینر لکھ رہا تھا کام کرتےکافی سال گزر گئےعربی زبان میں مہارت حاصل کرلی دوسرا تمام عربی خط اور رسم الخط میں وہ تقریباً کمال درجے تک جا پہنچا۔ کفیل اچھا آدمی تھا اس سے اجازت لیکر عمرہ اور زیارتیں بھی کرآیا ⬇️


ایک دفعہ مسجد نبویﷺ میں نماز ادا کرتے ہوئے اسکے دل میں خواہش نے جنم لیا کہ کاش مجھے موقع ملے اور مسجد نبوی کے اندر ایسی خطاطی کروں کہ دنیا حیران رہ جائے یہ خواہش لیئے واپس آگیا لیکن خوائش پروان چڑھتی رہی۔ ایکبار اس نے کہیں سےسنا کہ مدینہ منورہ میں اعلان ہوا کہ دنیا پھر سے ⬇️


خطاط کو دعوت ہےکہ مقررہ تاریخ پر ایک مخصوص رسم الخط میں ایک مخصوص عبارت لکھ کر جمع کروائیں جو مقابلے میں پہلی پوزیشن حاصل کریگا اسے مسجد نبویﷺ کا خطاط مقرر کیا جائےگا اسے لگا جیسے اس کی خواہش پوری ہونے کا وقت آگیا ہے وہ وہاں گیا تو دیکھا وہاں دنیا بھر سے ایسے ایسے خطاط اپنا ⬇️


کام لیکر آئے کہ ان کےسامنے اسکی حیثیت کچھ بھی نہ تھی۔ اسنے اپنا کام پیش کرنے کی خواہش کی لیکن کسی نےبھی اسے سنجیدہ نہ لیا نہ تو وہ معروف تھا اور نہ اس کاکوئی کام ایسا تھاجو مشہور ہو اوپر سےوہ کتابت کی جگہ سائن بورڈ اور بینر لکھنےوالا اور پھر اہل زبان بھی نہیں اسے حصہ نہ لینے ⬇️


دیا گیا، وہ مایوس ریاض لوٹ آیا اور تقریباً اس نے دل چھوڑ ہی دیا تھا کہ اس کی دکان پر ایک عربی آیا اس نے کہا مجھے فلاں سائز کی تختی خط ثلث میں چاہیے اس نے لکھ دی تو وہ حیران رہ گیا کہ اتنے کم داموں اتنا بہترین کام کوئی نہیں کرتا اس نے کہا تم میرےساتھ چلو اور دگنےمعاوضے پر کام ⬇️


کرو، لڑکے نے انکار کردیا عربی کہنےلگا میں ایک دکان مدینہ منورہ میں کھولنا چاہ رہا ہوں اگر کوئی دوسرا خطاط ہوا تو بتانا۔ لڑکے نے مدینہ منورہ کانام سنا توکہا میں وہاں کام کروں گااسے امید لگ گئی شاید میرا وسیلہ بن جائے وہ مدینہ منورہ چلاگیا مقابلےکے اختتام کا وقت قریب تھا، نئے ⬇️


کفیل کیساتھ کام ذیادہ تھا کفیل اسکےکام سے خوش تھا اس جیسا کام سعودیہ میں کوئی دوسرا کرنے والا تھا ہی نہیں کفیل تو اسکا مرید ہوگیا اسے بہترین کھانے کھلاتا جب بھی ملتا تو ہاتھ اور ماتھا چومتا غرض بڑی آؤ بھگت کرتا اس نے ایک دن کفیل سے اپنا مدعا بیان کیا کہ میں مسجد نبویﷺ میں ⬇️


خطاطی کے مقابلے میں حصہ لینا چاہتا ہوں میری کچھ مدد کردو کفیل نے اس کی بات مان لی اور اپنے جاننے والوں سے کہہ کر مقابلے تک لے گیا، بڑی مشکل سے اس کا نام رجسٹر ہوا اور اسے مقابلے کے لیے بطورِ نمونہ پہلے ایک عبارت لکھوائی گئی پھر اسےشریک کیا گیا یوں اس کی لکھی ہوئی تختی اور وہ ⬇️


اس مقابلے میں شریک ہوگئے مقابلہ ختمہوا۔نتائج کے اعلان کا دن تھا دنیا بھر سے ماہر اساتذہ کےدرمیان اس کا کام کیا حیثیت رکھتا تھا بہرحال مقابلے کے نتیجے کا اعلان ہوا اور خلاف توقع وہ دنیا بھر کے ماہر خطاطوں کو پچھاڑ کر اول انعام کا حقدار ٹھہرا امام الحرم اور جیوری نے جب اس خطاط ⬇️


کا نام اور ملک کا پوچھا تو کہنے لگا ”شفیق الزمان، پاکستان سے“ مجمعے پر خاموشی چھاگئی اور پورے عرب کے خطاط ایک دفعہ حیران رہ گئے کہ اجنبی نام اور غیر عرب کیسے اہل عرب سے جیت گیا، اور وہ شخص جیتا جسے مقابلے میں شریک ہی نہیں ہونےدیا جارہا تھا۔یوں جناب محترم شفیق الزمان کی خوش ⬇️


نصیبی اور سعادت کہ کہاں ایک تختی لگانے کی خواہش اور کہاں در و دیوار منور کرنے کیلیے مسجد نبویﷺ کا خطاط مقرر کیا گیا آہستہ آہستہ وہ وہاں کے تمام خطاطوں کے استاد بن گئے آج سعودی عرب میں نصف صدی کے لگ بھگ عرصہ گزارنے کےبعد مسجد نبویﷺ کے در ودیوار پر پچاسی فیصد کام شفیق الزماں ⬇️


کے ہاتھوں لکھا ہوا ہے حتیٰ کہ جس دروازے(باب سلام)سے داخل ہوکر اور جس مقام پر پہنچ کر سارا عالم اسلام روضۂ اقدسﷺ پر حاضری اور سلام کی سعادت حاصل کرتا ہے ان تمام جگہوں کو شفیق الزمان کے قلم اور برش نے مزین کررکھا ہے ایک عجمی کا خطاط المسجدالنبویﷺ پانا ایک معجزہ اور ایک سعادت ⬇️


سے کم نہیں آج حرم مکی کے امام حرم مدنی کے خطاط سے ملنے میں سعادت اور فخر سمجھتے ہیں اور حرمین الشریفین کے تمام خطاطی کے کاموں کے لئے شفیق الزمان سے مشاورت کی جاتی ہے۔ ریٹویٹ ضرور کریں مجھے فالو کرکے فالو بیک لیں @Arshe530


Top