(1/29) اداکارہ شبنم ریپ کیس ۔ 1978 ************************* فاروق بندیال( جسٹس عمر عطا بندیال فاروق بندیال کا کزن) جن کا تعلق خوشاب کی بااثر زمین دار فیملی سے ہے، کا نام 1978 ء میں اداکارہ شبنم گینگ ریپ کیس کے مرکزی مجرم کی حیثیت سے سامنے آیا تھا۔ یہ کیس اس زمانے میں


(2/29) شبنم ڈکیتی کیس کے نام سے مشہور ہوا تھا۔ فاروق بندیال اور اس کے دوستوں نے 12 مئی 1978ء کو گلبرگ لاہور میں اداکارہ شبنم کے گھر واردات کی اور ان کے شوہر روبن گھوش کو رسیوں سے باندھ کر ان کے سامنے یہ نوجوان رات بھر شیطانی کھیل کھیلتے رہے، ملزمان بعد ازاں نقدی اور زیورات لے


(3/29) کر فرار ہو گئے۔تمام ملزمان اعلیٰ خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے قریبی رشتہ داروں میں بیوروکریسی کے اعلیٰ افسران بھی شامل تھے۔ فاروق بندیال خوشاب کی تگڑی زمین دار فیملی سے تعلق رکھتا تھا‘یہ گاؤں بندیال کا رہنے والا تھا‘ اس کے ماموں ایف کے بندیال(عطا بندیال کا باپ)


(4/29) اس وقت چیف سیکرٹری تھے۔ واردات کے پانچ روز بعد 17 مئی 1978 ء کو لاہور پولیس نے ان ملزمان کو گرفتار کر لیا۔ اس زمانے میں جنرل ضیاء کا مارشل لاء نافذ تھا اور فاروق بندیال کے ماموں ایس کے بندیال صوبائی سیکریٹری داخلہ کے عہدے پر فائز تھے۔ فاروق اور اس کے ساتھیوں کو بچانے کی


(5/29) کوشش کی گئی مگر عوامی احتجاج اور فلم انڈسٹری کی ہڑتال کے بعد حکومت ان کے خلاف مقدمہ چلانے پر مجبور ہو گئی۔ 24 اکتوبر 1979 ء کو فوجی عدالت نے فاروق بندیال اور اس کے پانچ ساتھیوں کو سزائے موت سنا دی تاہم بعد ازاں اداکارہ شبنم پر دباؤ ڈلوا کر ان کی سزا معاف کر دی گئی۔


(6/29) فاروق بندیال کو کوٹ لکھپت جیل میں بی کلاس دی گئی تھی۔ جیل میں ‌موجود سیاسی قیدیوں کے مطابق وہ دوسرے ساتھیوں کے ساتھ عام قیدیوں کو بڑے فخر سے بتاتا تھا کہ ہم نے اداکارہ شبنم کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ مشرق وسطیٰ کے ایک ملک کی سفارش پر ان کی سزا عمر قید میں بدل دی گئی اور شبنم


(7/29) انہیں معاف کرنے کے بعد اپنے اکلوتے بیٹے اور خاوند کے ساتھ بیرون ملک منتقل ہو گئیں۔ یہ تو وہ کہانی ہے جو بہت سے لوگوں کو معلوم ہے اور ان میں سے کچھ باتیں اس زمانے کے اخبارات میں شائع بھی ہوئیں۔ لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سی کہانیاں اور واقعات ہیں جو آج کی نسل کو معلوم ہی


(8/29) نہیں اس مقدمے کی روداد چالیس برس قبل کے اخبارات میں نمایاں طور پر شائع ہوتی تھی۔ وہ اداکار شبنم کے عروج کا زمانہ تھا۔ فوجی عدالت میں سماعت کے موقع پر صحافیوں اور وکلاء کی بڑی تعداد وہاں موجود ہوتی تھی۔ اداکارہ شبنم نے 25 نومبر 1978 ء کو فوجی عدالت میں بیان ریکارڈ کرایا


(9/29) اور فاروق بندیال اور دیگر ملزمان کی شناخت کی۔ یہ سارا احوال روزنامہ امروز اور دیگر اخبارات میں تفصیل کے ساتھ شائع ہوا۔ ادکارہ شبنم کے وکیل نام ور ماہر قانون ایس ایم ظفر تھے جب کہ فاروق بندیال کی جانب سےبھی وکیل صفائی کے طور پر اس زمانے کے چوٹی کے وکیل عاشق حسین بٹالوی


(10/29) کی خدمات حاصل کی گئیں۔ عاشق حسین بٹالوی کی وجہ شہرت یہ تھی کہ وہ اسی زمانے میں نواب محمد احمد خان قتل کیس میں وکیل استغاثہ تھے۔ اس کیس کے مرکزی ملزم سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ اداکارہ شبنم نے بیان ریکارڈ کرانے سے قبل بائیبل پر حلف دیا، عدالت نے ان سے پوچھا کہ


(11/29) وہ کس زبان میں بیان ریکارڈ کرائیں گی تو شبنم نے کہا میں قومی زبان اردو میں ہی بیان دوں گی، اخبارات کے مطابق شبنم نے بتایا کہ ملزمان میرے بیٹے رونی کے اغوا اور قتل کی دھمکیاں دے رہے تھے اور میں بیٹے کی خاطر ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار تھی۔ ایس ایم ظفر نے اپنی کتاب میرے


(12/29) مشہور مقدمے میں اس کیس کی مکمل تفصیل بیان کی ہے۔ ان کا کہنا ہے خصوصی فوجی عدالت میں‌اداکارہ شبنم پر دباؤ ڈالنے کی کوشش بھی کی گئی لیکن شبنم نے بہت حوصلے کے ساتھ ملزمان کی نشاندہی کی اور جرح کا بھی سامنا کیا۔ ملزمان میں فاروق بندیال، وسیم یعقوب بٹ، طاہر تنویر بھنڈر جمیل


(13/29) احمد چٹھہ اور جمشید اکبر ساہی شامل تھے جو عدالت میں موجود تھے۔ جب شبنم سے پوچھا گیا کہ کیا آپ ان ملزمان کو پہچانتی ہیں تو انہوں نے کہا میں انہیں کیوں نہ پہچانوں گی جنہوں نے میرا سکون برباد کر دیا۔عدالت میں بیان دیتے ہوئے اداکارہ شبنم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ایس ایم


(14/29) ظفر لکھتے ہیں کہ واردات کی تفتیش کے دوران انکشاف ہوا کہ اداکارہ زمرد کے گھر پر بھی ایسی ہی واردات ہوئی تھی۔ زمرد کا گھر بھی شبنم کے گھر کے قریب ہی تھا ،اور اس میں ‌بھی یہی لوگ ملوث تھے، اداکارہ زمرد خوفزدہ ہو کر خاموش ہو گئی تھیں‌ لیکن شبنم نے مقدمے کی پیروی کی اور تمام


(15/29) دھمکیوں اور دباؤ کا بھی سامنا کیا۔ سینئر صحافی جمیل چشتی اس زمانے میں عباس اطہر کی ادارت میں شائع ہونے والے روزنامہ آزاد کے لئے کام کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ میں پہلا صحافی تھا جو واردات کے بعد شبنم کے گھر پہنچا۔ گھر میں سامان بکھرا پڑا تھا اور شبنم کی حالت غیر تھی۔


(16/29) روبن گھوش کا ململ کا کرتا پھٹا ہوا تھا۔ شبنم اپنے بیٹے کو گود میں لئے رو رہی تھیں اور وہ بار بار بے ہوش ہو جاتی تھیں‌۔ شبنم کے بیڈ روم میں پرفیوم کی بے پناہ خوشبو تھی جو ملزمان شبنم پر انڈیلتے رہے تھے۔ جمیل چشتی کے بقول ان کی موجودگی میں ہی اداکار محمد علی بھی شبنم کے


(17/29) گھر پہنچے اور انہوں نے انتظامیہ اور پولیس سے رابطے کئے۔ جمیل چشتی کے بقول ایک ملزم جمشید اکبر ساہی کا تعلق پولیس سے تھا، اس لئے ملزمان پولیس کی نقل و حرکت سے بھی واقف تھے۔ اس زمانے میں پولیس صبح ساڑھے چار بجے تک گشت کیا کرتی تھی۔ ملزمان نے واردات کے بعد ساڑھے چار بجنے


(18/29) کا انتظار کیا اور پولیس گشت ختم ہونے کے بعد اطمینان سے فرار ہو گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بعد ازاں ملزمان کی گرفتاری بھی اسی جمشید ساہی کی وجہ سے عمل میں آئی۔ واردات کے دوران جو زیورات لوٹے گئے ان میں اداکارہ شبنم کا ایک قیمتی ہار بھی تھا۔ ساہی واردات کے تیسرے روز وہی ہار


(19/29) ایک طوائف کو دینے کے لئے بازار حسن گیا اور وہاں پہلے سے موجود مخبروں کی نشاندہی پر دھر لیا گیا۔ ملزمان کو فوجی عدالت سے سزائے موت سنا دی گئی۔ اس فیصلے کے بعد ملزمان کے لواحقین نے شبنم پر بھر پور دباؤ ڈالا۔ بندیال فیملی، ججز،چیف سیکریٹری اور دیگر اسٹیبلشمنٹ کا پریشر بہت


(20/29) زیادہ ہوا تو ضیاء الحق نے بھی گھٹنے ٹیک دئیے۔ اداکارہ شبنم کا گھرانہ اس وقت سخت ترین اذیت سے گزر رہا تھا، انہوں نے اپنے بیٹے کو امریکہ بھیج دیا۔ اب وہ صرف مجرموں کو سزا دلوانا چاہتی تھی۔ آخر شبنم کوانہیں معاف کر نا پڑا۔ شبنم کے وکیل ایس ایم ظفر نے جس پر صدر مملکت سے


(21/29) اپیل کی تھی۔ شبنم اور رابن گھوش سے معافی نامے پر دستخط کروائے گئے اور سزائے موت کو معمولی سزا دس سال قید میں بدل دیا گیا۔ لیکن دو سال بعد رہا ہوگئے شبنم کیس میں ادکارہ شبنم دبائو میں آچکی تھیں اور مجرموں کو سزا نہیں دلوانا چاہتی تھی کیونکہ وہ سمجھتی تھیں کہ اس طرح


(22/29) مجرموں کے خاندان اس کے دشمن بن جائیں گے۔ صحافی آج تک شاہ صاحب سے پوچھتے ہیں ”آپ شبنم کے وکیل تھے‘ آپ کی جرح پر ملزموں کو سزائے موت ہوئی تھی پھر آپ نے ملزموں کےلئے اپیل کیوں کی؟“ میں نے بھی شاہ صاحب سے یہ سوال کیا‘ ایس ایم ظفر نے دو وجوہات بتائیں‘ ان کا کہنا تھا” میں


(23/29) سزائے موت کے خلاف ہوں‘ میں نہیں چاہتا تھا میری وجہ سے کوئی شخص پھانسی چڑھ جائے‘دوسری وجہ شبنم تھی‘ شبنم بھی نہیں چاہتی تھی ملزموں کو پھانسی ہو‘ وہ کہتی تھی اس سے ان کے خاندانوں کے ساتھ دشمنی ہو جائے گی اور ہم یہ نہیں چاہتے چنانچہ میں نے جنرل ضیاءالحق کو خط تحریر کر دیا“


(24/29) یہ وضاحت اپنی جگہ لیکن یہ حقیقت ہے شبنم سے لے کر ایس ایم ظفر کے خط اور جنرل ضیاءالحق کی منظوری تک فاروق بندیال کے ماموں ایف کے بندیال نے اہم کردار ادا کیا ‘ یہ بااثر ترین بیوروکریٹ تھے‘ جنرل ضیاءالحق انہیں ہاتھ میں رکھنا چاہتے تھے۔چنانچہ درخواست فوراً منظور ہو گئی ورنہ


(25/29) ایس ایم ظفر نے کتنے فیصلوں کے بعد ملزموں کی معافی کےلئے درخواستیں کیں اور کتنی درخواستیں منظور ہوئیں؟ یہ بہرحال ملزم کے ماموں کا ڈنڈا تھا چنانچہ شبنم کو پورا انصاف نہ مل سکا‘ ملزمان کی سزا عمر قید میں تبدیل ہوئی‘ جیل میں بھی انہیں رعایتیں ملیں اور یہ دو برس میں رہا ہو


(26/29) کر گھر واپس آ گئے اور خاندان نے ڈھول بجا کر ان کا استقبال کیا۔یہ کیس شبنم کا کیریئر‘ توانائی اور جذبہ تینوں کو نگل گیا‘ یہ فلم انڈسٹری سے پسپا ہوئی‘تنہائی کا شکار ہوئی اور آخر میں والدین کے پاس بنگلہ دیش جانے کا فیصلہ کر لیا‘ ایف کے بندیال اس وقت بھی موجود تھے چنانچہ


(27/29) حکومت نے شبنم کو بنگلہ دیش جانے کی اجازت نہ دی‘ شبنم دو سال وزارت خارجہ کے این او سی کے لئے ماری ماری پھرتی رہی یہاں تک کہ اس نے حکومت کو لکھ کر دے دیا ”میرے والدین بیمار ہیں‘ مجھے ایک بار ان سے ملاقات کی اجازت دے دی جائے‘ میں وعدہ کرتی ہوں‘ میں واپس آؤں گی“ یہ


(28/29) درخواست اوپر تک گئی اور شبنم کو صدر کی ہدایت پر بنگلہ دیش جانے کی اجازت دی گئی‘یہ ڈھاکہ گئی اور پھر اپریل 2012ءمیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ کےلئے پاکستان آئی‘ شبنم کا بیٹا رونی ڈکیتی کی واردات کے بعد امریکا شفٹ ہو گیا‘ یہ کبھی دوبارہ پاکستان نہیں آیا‘ روبن گھوش13فروری


(29/29) 2016ءکوانتقال کر گئے یوں اس کیس کے بعد شبنم ماضی کا قصہ بنتی چلی گئی۔


Top